Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

”آئی ایم رئیلی سوری یار!“ وہ دادی کے سخت رویئے پر دلبرداشتہ ہو کر چپکے چپکے آنسو بہاتے ہوئے چائے بنا رہی تھی جب وہ دبے پاؤں اس کے قریب آکر دھیمے نادم لہجے میں گویا ہوا۔
”سوری کس لئے ،آپ کی دلی مراد بر آئی ہے دادی جان سے مجھے ڈانٹ کھلوا کر آپ ہمیشہ ہی خوش ہوتے رہے ہیں ،اب بھی خوش ہوئے ہوں گے ،یہ بلاوجہ سوری کیوں کہہ رہے ہیں۔“ وہ تیزی سے آنچل سے آنسو صاف کرتے روٹھے لہجے میں گویا ہوئی۔
”رئیلی یار! میں شرمندگی فیل کر رہا ہوں ،مجھے معلوم نہ تھا دادی جان اس طرح ٹیمپر لوز کر بیٹھیں گی ،ورنہ میں ہرگز مذاق نہ کرتا۔ اس کے بھاری لہجے میں پچھتاوا تھا وہ ہونٹ بھینچے اس کو دیکھ رہا تھا جو اس سے نظریں چرائے کیبنٹ سے کپ نکال کر ٹرے میں سیٹ کر رہی تھی چولہے پر رکھی کیٹل میں چائے تیایر ہو کر دم پر رکھی تھی۔


”آپ دادی کے پاس جا کر بیٹھیں میں چائے لا رہی ہوں۔
“ اس کی نگاہیں خود پر مرکوز دیکھ کر وہ الجھن محسوس کر رہی تھی۔
”یعنی عام لفظوں میں یہ کہہ رہی ہو ،میں یہاں سے دفع ہو جاؤں اپنی صورت لے کر؟“ نامعلوم اس کے لفظوں میں ایسا کیا تھا بے ساختہ پلیٹ میں بسکٹ نکالتی وہ پلٹ کر اسے دیکھنے لگی ،وہ بڑی مظلوم نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔
”سچ کہہ رہا ہوں نا… تم دل میں یہی کہہ رہی ہو گی؟“
”اگر میں ایسی ہی ناپسندیدہ ہوں تو پھر مجھ سے تعلق جوڑنے کا کیا مقصد ہے؟ جائیں جا کر سوچیں ابھی بھی وقت ہے۔
“ وہ چائے فلاسک میں ڈالتی ہوئی گویا ہوئی۔
”کیا سوچوں؟“ اس کی پیشانی پر شکنیں در آئی تھیں۔
”میرے اور آپ کے تعلق کے بارے میں ،ابھی آپ مجھ پر الزام لگا رہے ہیں پھر بعد میں کیا کریں گے اسی طرح دادی سے ڈانٹیں کھلواتے رہیں گے یا پاپا کی طرح چھوڑ دیں گے مجھے؟“
”شٹ اپ اٹس ٹو مچ پارس! ہر بات کی ایک حد ہوتی ہے ایسی بات زبان پر کیوں لاتی ہو جو میں سوچنا بھی پسند نہیں کرتا ہوں۔
“ اس کے وجیہہ چہرے پر ناگواریت سرخی بن کر چھا گئی تھی۔
”یہی تو عادت ہے آپ کی ،آپ سوچتے نہیں ہیں اور کہہ دیتے ہیں خواہ اس پر کسی کی عزت نفس گھائل ہو یا کسی کا دل ہی ٹوٹ کر رہ جائے ،آپ کو پرواہ نہیں ہوتی ہے۔“ وہ بھی قائل ہونے پر تیار نہ تھی۔
”تم ابھی تک میرے مزاج کو سمجھ نہیں سکی حیرت ہے۔“ وہ اس کو منانے آیا تھا اور اب خود ہی روٹھنے لگا تھا۔
”میں کہہ رہا ہوں شرمندہ ہوں مجھے معلوم ہوتا دادی اس طرح ری ایکٹ کریں گی تو میں کبھی بھی اس طرح مذاق نہیں کرتا اور تم دادی کی حالت سے واقف ہو ،جب سے وہ ہارٹ پیشنٹ بنی ہیں تب سے معمولی معمولی بات پر اسی طرح ہائپر ہو جاتی ہیں۔“
”میں دادی کی ڈانٹ پر خفا نہیں ہوں۔“ وہ نرمی سے گویا ہوئی۔
”پھر مجھ سے خفا ہونے کی سعی بھی تمہیں بھاری پڑے گی ،میں اتنی آسانی سے معاف کرنے والا بندہ نہیں ہوں۔
###
درد کے ساگر میں گویا تیرتی ہوئی وہ گھر میں داخل ہوئی تھی پاؤں بری طرح لڑکھڑا رہے تھے ،آنکھوں کے سامنے بار بار اندھیرا چھا رہا تھا وہ خود کو سنبھالتی ہوئی اپنے پورشن کی سمت بڑھ گئی اور اس بار بھی خوش قسمتی نے اس کا ساتھ دیا جو کسی نے اسے آتے ہوئے نہیں دیکھا تھا کہ وہ اس وقت جس اذیت سے گزر رہی تھی اس میں کسی کا سامنا کرنے کی ہمت بھی نہیں تھی۔
اپنے کمرے میں جانے کیلئے سیڑھیاں چڑھنا اس کو کسی امتحان سے کم نہیں لگ رہا تھا ہر قدم پر درد کا نیا احساس جاگ رہا تھا۔ آنسو آنکھوں سے روانی سے بہہ رہے تھے شیری کی آوازیں سماعتوں میں گونج رہی تھی۔
”سالی… مجھ سے شادی کے خواب دیکھ رہی ہے ،میں شادی کروں گا تجھ جیسی گھٹیا لڑکی سے…“ دوسری آوازوں نے بھی اس کا تعاقب کیا تھا۔
”فیاض کی بیٹی میرے گھر میں بہو بن کر آئے گی ،میرے گھر میں اجالا ہو جائے گا۔
“ عابدی انکل کی پرجوش آواز اسے اپنا مذاق اڑاتی ہوئی لگی۔
”کمینی… کل میرے سامنے گر گئی تھی آج کسی اور کے ساتھ تو کل کسی کے سامنے۔“
”عادلہ ہماری بہو بنے یہ ہماری دلی خواہش ہے ،آپ کی فیملی کی لڑکیوں کی خوش مزاجی و شرافت کی لوگ مثال دیتے ہیں۔“ مسز عابدی کی آواز گونجی تھی۔
”آخ تھو… تجھ جیسی لڑکی پر میں کبھی یقین نہ کروں۔
”اب آیا ہے قابو میں شیری… تم اس پر گرفت ذرا ڈھیلی نہ چھوڑنا۔“ ممی مٹھائی کھلاتے ہوئے سرگوشی کر رہی تھیں۔
آنسوؤں کا گولہ سا اس کے حلق میں پھنسنے لگا دل چاہا خوب چیخ چیخ کر روئے اور سب کو شیری کی اصلیت بتا دے اور پری کو تباہ ہونے سے بچا لے ،اس کے ارادوں کو وہ اچھی طرح جانتی تھی اور یہ جانتی تھی اس نے شیری کی بات نہیں مانی ،اسے دھوکہ دینے کی کوشش بھی کی تو وہ اسے اور اس کے خاندان کو تباہ و برباد کر دے گا ،انہی سوچوں میں وہ لڑکھڑائی تھی اور سیڑھیوں سے گرتی چلی گئی تھی۔
###
اس نے لان میں لگے مہکتے گلاب شاخوں سے علیحدہ کئے اور ان کو لے کر عائزہ کے پاس چلا آیا تھا وہ اس کی وجہ سے ہی کچن میں پناہ لئے ہوئے تھی اس کو سامنے دیکھ کر ہڑبڑا کر بولی۔
”آپ… کچھ چاہئے آپ کو…؟“ وہ خاصی نروس تھی۔
”جی ہاں بالکل…“ وہ مسکراتا ہوا قریب چلا آیا تھا ،پھولوں والا ہاتھ اس نے پشت کی طرح چھپایا ہوا تھا۔
”کیا… کیا چاہئے آپ کو…؟“
”معافی ،محبت ،زندگی بھر کا ساتھ… تم دو گی مجھے؟“ اس کے لہجے میں محبت کی مٹھاس تھی ساتھ ہی ندامت بھی تھی۔ عائزہ سمٹ کر رہ گئی اس کے چہرے پر پھیلتی قوس و قزح کے رنگ بڑے دلکش تھے وہ سر جھکا کر مسکرا دی تھی۔
”ہمارے درمیان جو کچھ بھی ہوا اسے میں بھولنا چاہتا ہوں عائزہ! کیا تم وہ سب بھولنے میں میری مدد کرو گی؟“ اس نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔
”جی ،اپنے اپنے حصے کی سزائیں ہم بھگت چکے ہیں آپ مجھ جیسی لڑکی کو معاف کر سکتے ہیں جس نے سب کے اعتبار کو دھوکہ دیا ہے ،میں اپنی کم مائیگی سے ڈرتی ہوں آپ کی رفاقت کے قابل نہیں سمجھتی خود کو ،آپ نے مجھے معاف کر دیا یہ آپ کی اعلیٰ ظرفی ہے۔“ وہ قطرہ قطرہ پگھلنے لگی تھی۔
فاخر نے اس کو حصار میں لے لیا اور وہ اس کے شانے سے سر ٹکا کر آنسو بہانے لگی تھی ،آج اسے معافی مل گئی تھی۔
وہ سرخرو ہو گئی تھی ایک کٹھن راہ پر چل کر اسے منزل مل گئی تھی۔
”میں ڈرتے ڈرتے یہاں آیا تھا کہ شاید تم مجھے دھتکار دو گی ،میرے جذبوں کی توہین کرو گی لیکن تمہارے ایثار و قربانی کے جذبے نے میرے دل میں تمہاری قدر و منزلت مزید بلند کر دی ہے۔ آج مجھے تمہارے ساتھ پر فخر و خوشی ہے تم نے کھلے دل سے میرے جذبوں کو پذیرائی دے کر مجھے ہمیشہ کیلئے اپنا بنا لیا ہے۔
“ اس کا ہر لفظ سچا تھا عائزہ کے چہرے پر آسودہ مسکراہٹ پھیل گئی۔
###
چند ماہ بعد اعوان کو اپنے روبرو پا کر وہ حیران تھی جبکہ وہ خاصا ناراض تھا اور ناراضی کا اظہار کر رہا تھا۔
”اتنا کچھ ہو گیا اور تم نے مجھے بتانے کی زحمت بھی نہ کی ماہ رخ! یا مجھے اس قابل ہی نہیں سمجھا۔ کانٹیکٹ نمبر ہونے کے باوجود بھی مجھ سے رابطہ کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی ایسی کیا خطا ہو گئی ہے مجھ سے جو تم اس بری طرح بدظن ہو کہ ایسے مشکلات حالات میں بھی تم نے مجھ سے بات کرنی ضروری نہیں سمجھی؟“ وہ خاصا مضطرب و بے کل دکھائی دے رہا تھا۔
”ہمارے درمیان کوئی سگا رشتہ نہ سہی مگر دوستی کا رشتہ تو ہے نا؟ اب یہ مت کہہ دینا مرد و عورت کی کیسی دوستی؟“ اس کے منہ بنا کر کہنے پر وہ بے ساختہ مسکرا دی تھی۔
”دوستی میں صرف اور صرف محبت ،خلوص اور ایثار کو مدنظر رکھا جاتا ہے اگر ہمارے جذبے پاک ہیں تو میں مرد و عورت کی دوستی کو کوئی الزام نہیں دیتا۔“
”ٹھیک کہہ رہے ہو تم اعوان! میں نے تمہاری دوستی سے کبھی انکار نہیں کیا بلکہ میں نے تم کو دوستی میں سب سے زیادہ مخلص و ہمدرد پایا ہے۔
“ اس کے لہجے میں ستائش تھی۔
”اچھا ،دوستی کے دعوے کے باوجود بھی دوست کی مدد طلب نہ کرنے کا مقصد کیا ہے؟“ وہ حیران تھا۔
”آپ نے مجھے کسی وضاحت کا موقع دیئے بغیر ہی طعنے دینا شروع کر دیئے تو میں نے سوچا پہلے آپ اپنے دل کی تمام بھڑاس نکال لیں پھر میں بتاؤں گی ،رابطہ نہ کرنے کی وجہ کیا ہے؟“
”اوہ ،کیا ہوا تھا؟“ اس کا غصہ از خود اتر گیا۔
”تمام بات تو آپ کو معلوم ہو گئی ہے جب اس زمیندار کے آدمی مجھے اغواء کرنے کیلئے آئے تو وہاں سے ملازمہ کی مدد سے میں نکلنے میں کامیاب ہوئی تھی اور اس دوران مجھے گھر سے موبائل اٹھانے کی مہلت بھی نہ مل سکی تھی اور تم سے اس وجہ سے میں رابطہ نہ کر سکی تھی۔“
”اب تمہیں فکر مند ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے میں آگیا ہوں۔“ وہ تسلی دیتا ہوا بولا۔
”وہ بے حد اثر و رسوخ والا آدمی ہے اس کی وجہ سے گلفام کو بے گناہ ہونے کے باوجود عمر قید کی سزا ہو گئی ہے اور مجھے بھی ابھی تک کئی گھر بدلنے پڑے ہیں یہاں آ کر کچھ سکون ملا ہے کہ وہ یہاں تک نہیں پہنچ سکا پھر بھی مجھے خطرہ رہتا ہے کہ نامعلوم وہ کب یہاں پہنچ جائے۔“ اس کے لہجے میں خوف نمایاں تھا۔
”ڈرو نہیں مطمئن رہو ،مجھ سے زیادہ اس کی اپروچ نہیں ہو گی ،میں نے گلفام کو بے گناہ ثابت کرنے کیلئے اس شہر کا سب سے بڑا وکیل کر لیا ہے وہ کیس کورٹ میں فائل کر چکا ہے انشا اللہ بہت جلد گلفام جیل سے باہر ہو گا۔
”یہ مجھ پر تمہارا ایک اور بڑا احسان ہے اعوان! تمہارے احسانوں کا بدلہ میں زندگی دے کر بھی نہیں اتار سکوں گی۔“
”اگر تم نے کوئی ایسی کوشش بھی کی تو وہ ہماری دوستی کا آخری دن ہو گا۔“

   1
0 Comments